Wednesday 3 November 2010

Pakistan.....اللہ کی رحمت

پاکستان کی حکومت اپنے طے شدہ ولائتی منشور کے مطابق غریب مار مہم کوجاری رکھے ہوئے ہے اور اسکی کوشش ہے کہ اس میں کسی قسم کا وقفہ نہ آنے پائے اسی وجہ سے ہر ماہ کیا ہر ہفتے ہی کوئی نہ کوئی خصوصی پیکج آجاتا ہے، آئی ایم ایف کے متعلق حالیہ بیان کیمطابق آئی ایم ایف جو کہ ایک صیہونی ذیلی ادارہ ہے نے ہدائت کی ہے کہ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے بجلی مہنگی کرو،،،کمال حیرت ہے کہ نجانے بجلی مہنگی کرنے سے کیسے معیشت سنبھلے گی۔،،؟ جبکہ حالات یہ ہیں مہنگائی نے قوت خرید میں زبردست کمی کردی ہے۔اور معاشیات پڑھنے والا عمومی طور پر جانتا ہے کہ قوت خرید کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اشیائے فروخت میں کمی ہوجاتی ہے اور جو کہ سبب بنتی ہے بیروزگاری کا، اور بچتیں بھی کمترین سطح پر آجاتی ہیں اور بچت جتنی کم ہوگی اسکا مطلب ہوا کہ سرمایہ کاری میں کمی ہوگی کیونکہ ماہرین کیمطابق بچت = سرمایہ کاری میں اضافہ،،،، سادہ سے اصول سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرمایہ کاری تو معیشت کو سنبھالا دیتی ہے۔ جبکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں تو سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کہ برابر ہے اور اوپر سے مزید سرمایہ کاری یا بچتوں میں کمی کرنے والی اصلاحات،،،،؟
آئی ایم ایف اگر مخلص ہوتا تو ہدایت دے سکتا تھا کہ سرکاری اخراجات اور کرپشن پر قابو پایا جائے کابینہ اور وزراء کی تعداد میں کمی کی جائے، مگر ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ درج بالا ادارے کون چلا رہا ہے اور وہ عالم اسلام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟
جبکہ پاکستان کے غریب طبقہ کی حالت یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ انکی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ مہگائی میں اضافہ کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہونے کے علاوہ جرائم کی شرح میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے جن میں اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، راہزنی، چوری وغیرہ کا شمار تو ممکن ہی نہیں ہے
مہنگائی نے تعلیم بھی غریبوں کیلئے شجر ممنوعہ بنادی ہے، تعلیم کہ جس سے نسلوں کی آبیاری کیجاتی ہے تاکہ مستقبل میں کھلنے والے پھول سارے گلشن کو مہکا سکیں۔۔۔ مگر وہ پھول جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہوتے ہیں کو پیٹ کی فکر ہوجاتی تو انکے ہاتھوں میں کتابیں نہیں بلکہ محنت و مشقت کے اوزار نظر آتے ہیں۔یہ ایک سلسلہ ہے جو کہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا پوری قوم مایوسی میں گھری ہوئی ہے، ایسی کشتی کی مانند جس کے ناخدا کا کہیں اتا پتہ ہی نہیں ایسے میں اللہ کے سوا کون ہے جو اس قوم کی نجات ممکن بنائے یہ قوم جو کہ رسول خدا صہ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اسکے احکامات کو عملی زندگی پر لاگو کرنا گناہ سمجھتی ہے، جو اللہ کی مجتبیٰ قوم ہونے کی دعویدار ہے مگر اللہ کے سرکشوں سے مدد کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ یہ قوم کہ جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے مگر آدھی صدی کے باوجود ابھی تک اللہ کا قانون نہ نافذ کرسکی، جس کا دعوٰی تھا کہ یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے اور جس کو یہ خبر تک نہیں کہ اس نے اسلام کی‌حفاظت نہیں بلکہ اپنے پچاس سالہ اعمال سے اسکی دیواریں کمزور کی ہیں۔کیا ایسی قوموں کی معافی ممکن ہے، نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ کی رحمت کی امید نہ ہو تو کوئی نہیں جو ہمکو اس کے غضب سے بچاسکے۔

No comments:

Post a Comment